ڈاکٹر راو ءعبدالتواب خان (تمغہ امتیاز) اور بیگم پروین تواب (ستارہ امتیاز)
March 31, 2021
World Autism Awareness Day
April 6, 2021

وہ دو خصوصی بیٹوں کی والدہ تھیں ۔ اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی اور میں نے انہیں ہمیشہ بہت راضی بہ رضا اور شکرگزاری کرنے والا پایا تھا۔ لیکن اٗس دِن وہ میرے سامنے بیٹھی تھیں اور انکی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔  وہ کہہ رہی تھیں:

 کوئی ہمارے لیے کیوں نہیں لکھتا؟

 ہمیں کبھی کبھی یہ سننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم بہت اچھے طریقے سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہیں۔

ہم خصوصی بچوں کی مائیں بہت تنہا ہو جاتی ہیں، چند ہمت اور تعریف بھرے الفاظ ہمیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

وہ بہت دکھی تھیں، کیونکہ انکے بھائی نے انہیں اپنے بیٹے کی شادی پر نہیں بلایا، مبادا انکی بہن کہ دو خصوصی بچوں کو دیکھ کر انکے ہونے والے سمدھی ڈسڑب نہ ہو جایئں۔ وہ کہنے لگیں، میرے دونوں بچے آٹزم کے ساتھ ہیں، میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں۔ سکول سے جانے کے بعد میں اپنے بچوں کے ساتھ اپنے پورشن میں لاک رہتی ہوں کہ کہیں میرے دیور کی فیملی ڈسڑب نہ ہو۔ میں نے کبھی کسی شکایت نہیں کی، لیکن میرا دِل ضرور چاہتا ہے کہ کوئی میری ہمت بڑھائے، کوئی مچھے کہے کہ میں تنہا نہیں ہوں۔  

یہ صرف ایک ماں کا قصہ نہیں ہے۔ جب کسی گھر میں ایک خصوصی بچہ آتا ہے تو اکثر والدین، خاص کر ماں کو لوگوں کے بہت سے چبھتے سوالات اور ناخوشگوار تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچہ چاہے جسمانی معذوری کاشکار ہو، بصارت سے محروم ہو یا ذہنی صلاحییتیں محدود ہوں۔ والدین کودومحاذوں پر بیک وقت لڑنا پڑتا ہے۔

ایک تو وہ اپنے جذبات سے نبرد آزما ہوتے ہیں کہ اٗنکے بچے کے ساتھ ایسا کیسے ہو گیا؟ اب انکے بچے کا مستقبل کیا  ہو گا؟ وہ اپنے بچے کے علاج و تربیت کے لیے کِس سے رابطہ کریں؟ دوسری طرف خاندان اور معاشرے کے سوالات کا سامنا ہوتا ہے۔

ایک خصوصی بچے کی ماں کو شروع سے اپنے دیگر بچوں کی تربیت، گھر کی ذمہ داریوں اور اِس بچے کی تھیراپی، علاج اور تربیت کی کوششوں میں ایک توازن رکھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔

جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں تو انکو ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا احترام کرنا سکھانا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تربیت دینا ایک اور اہم کام ہوتا ہے۔

ایک والدہ، جنکا بیٹا ڈاونز سینڈروم کے ساتھ ہے، نے مجھے بتایا کہ بعض اوقات پارک یا مارکیٹ میں  کچھ لوگوں کا رویہ اتنا نامناسب ہوتا ہے کہ میری ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔

 ایک بچی جو کروزون سینڈروم کے ساتھ تھی، اسکے والد نے اسکی والدہ سے صرف اِس لیے اپنے راسطے جدا کر لیے کہ وہ اپنی بچی کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا سامنا نہیں کر پائے۔ اُس بچی کی والدہ نے ایک مرتبہ مجھے کہا تھا کہ

“زیادہ تر لوگ دِل کے اچھے ہوتے ہیں لیکن تجسس سے مجبور ہو کر ایسے دیکھتے یا سوالا ت کرتے ہیں کہ ہم والدین کے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے”۔

ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ ایک خصوصی بچے کے دیگر بہن بھایوں کے رشتوں میں مشکل ہوئی، کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ اِنکے اپنے بچے بھی خصوصی ہو سکتے ہیں۔ میں ایک ایسی والدہ کو جانتی ہوں جنکا بیٹا سیریپرل پالسی کا شکار تھا (یہ ماروثی نہیں ہوتا)، وہ اپنی بیٹی کے لیے آنے والے افراد سے خاص طور پر اپنے بیٹے کو بھی ملاتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ میں صرف ایسے خاندان میں اپنی بیٹی کی شادی کروں گی، جہاں اِسکے بھائی کو کھلے دل سے قبول کیا جاے۔

میں کئی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جنکے رات میں آنسووں سے بھیگے تکیے کبھی انکی ہمت پست نہیں کر سکے، وہ ہر صبح ایک نئے جذبے اور ہمت سے اپنے بچوں کی تربیت کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔

خصوصی بچوں کی مائیں بہت خاص ہوتی ہیں۔ آج کے بعد جب بھی آپ کی ملاقات کسی ایسی ماں سے ہو جسکا بچہ کسی ڈس ایبیلیٹی کے ساتھ ہو تو اسکو ضرور بتایے گا کہ

ہمیں اُس ہر فخر ہے

وہ بہت اچھی ماں ہے اور وہ اکیلی نہیں ہے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Donate